تحریر: مولانا محمد احمد فاطمی
حوزہ نیوز ایجنسی| 11 دسمبر 2024 کو رہبرِ معظم انقلابِ اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی امام سید علی حسینی خامنہ ای مدظلہ نے ایک اہم خطاب میں شام کی موجودہ صورتحال، خطے میں امریکہ اور اسرائیل کے کردار اور مزاحمتی محاذ کی اہمیت پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ اس خطاب میں انہوں نے نہ صرف شام کے بحران کی جڑوں کو کھنگالا، بلکہ اس بحران کے عالمی سطح پر اثرات اور ایران کی جانب سے اس میں شمولیت کے جواز کو بھی واضح کیا۔ اس مضمون میں ہم اس خطاب کے اہم نکات کا جائزہ لیں گے اور ان پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔
امریکی اور اسرائیلی رژیم کا حالیہ شام کے مسائل میں کردار
رہبر معظم نے اپنے خطاب میں سب سے پہلے شام میں جاری بحران کا تجزیہ کرتے ہوئے امریکہ اور اسرائیلی رژیم کی مداخلتوں کو اس کی بنیادی وجوہات قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ شام میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ دراصل امریکہ اور اسرائیل کے مشترکہ منصوبوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حالانکہ بعض ہمسایہ ممالک بھی اس مسئلے میں ملوث ہیں، لیکن اصل فیصلہ ساز امریکہ اور اسرائیل ہیں۔
رہبر معظم نے یہ بھی کہا کہ ان کے پاس اس بات کے ٹھوس شواہد ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل نے شام میں دہشت گرد گروپوں کی حمایت کی ہے۔ اسرائیل نے ۳۰۰ سے زائد مقامات پر بمباری کی، جبکہ امریکہ نے ۷۵ مقامات پر حملے کیے۔ اس کے علاوہ، اسرائیل نے شام کی زمینوں پر قبضہ کیا اور امریکہ، یورپ اور دیگر حساس حکومتوں نے خاموشی اختیار کی یا اس صورتحال میں مدد فراہم کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام کارروائیاں ایک منظم سازش کا حصہ ہیں، جس کا مقصد شام میں ایران کی موجودگی کو کمزور کرنا اور اس کے اثرورسوخ کو محدود کرنا ہے۔
مزاحمتی محاذ اور اس کی طاقت
رہبر معظم نے مزاحمتی محاذ کے بارے میں بھی اہم نکات بیان کیے اور اس کی حقیقت کو واضح کیا۔ انہوں نے کہا کہ "مزاحمتی محاذ" کوئی ایسی تنظیم یا سسٹم نہیں ہے جو کسی دباؤ کے تحت ٹوٹ جائے۔ یہ ایمان، سوچ، پختہ ارادے اور ایک اعتقادی مکتبہ فکر پر قائم ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ محاذ ایک معاہدہ یا سمجھوتے کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ ایک ایسا عقیدہ ہے جس پر اس خطے کے عوام یقین رکھتے ہیں۔
رہبر معظم نے اس بات پر زور دیا کہ جتنا زیادہ دشمن دباؤ ڈالے گا، اتنا ہی مزاحمتی محاذ مضبوط ہوگا۔ انہوں نے اس کی مثال حزب اللہ لبنان، حماس، جہاد اور فلسطینی جنگجوؤں کی جدوجہد سے دی، اور کہا کہ یہ تمام قوتیں مزاحمتی محاذ کا حصہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دشمن جتنا زیادہ ظلم کرے گا، مزاحمت اتنی ہی زیادہ متحرک اور پھیلتی جائے گی۔
رہبر معظم نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کچھ تجزیہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ اگر مزاحمت کمزور ہو جائے گی تو ایران بھی کمزور ہو جائے گا، لیکن انہوں نے اس خیال کو سختی سے مسترد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اللہ کی مدد سے ایران مضبوط اور مستحکم رہے گا اور اس کی استقامت میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔
شام میں ایران کی موجودگی کا جواز
رہبر معظم نے شام میں ایران کی موجودگی کو جواز فراہم کرتے ہوئے اس بات کو واضح کیا کہ شام کی حکومت نے ایران کے ساتھ دفاع مقدس کے دوران اہم تعاون کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ صدام حسین کے خلاف تیل کی پائپ لائن کو بند کرنے اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد کو نظر انداز کرنے کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران نے اس تعاون کا بدلہ تعاون سے دیا۔
رہبر معظم نے داعش کے خلاف لڑائی میں ایران کے کردار کو بھی اجاگر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ایران نے عراق اور شام دونوں میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں شمولیت اختیار کی، اور اس کا مقصد دو اہم باتوں کا تحفظ تھا: ایک تو مقدس مقامات کی حفاظت اور دوسرا شام اور خطے کی سیکیورٹی۔
رہبر معظم نے اس بات کو بھی واضح کیا کہ ایران نے اس جنگ میں مشاورتی کردار ادا کیا، جس میں اہم مرکزی مراکز قائم کرنا، حکمت عملی طے کرنا اور ضرورت پڑنے پر میدان جنگ میں شرکت کرنا شامل تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران نے ان علاقوں میں موجود جوانوں کو تیار کیا اور انہیں داعش کے خلاف کامیابی حاصل کرنے میں مدد فراہم کی۔
خطے کے مسائل اور دشمن کی سازشیں
رہبر معظم نے شام کے بحران کو خطے میں دشمن کی سازشوں کا حصہ قرار دیا اور کہا کہ اس بحران سے ہمیں سبق سیکھنا چاہیے۔ انہوں نے خطے کے عوام کو دشمن کی مسکراہٹوں پر بھروسہ نہ کرنے کی نصیحت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ دشمن کبھی بھی اپنے ارادوں میں کامیاب نہیں ہو سکتا، اگر ہم استقامت اور ایمان کے ساتھ ان کے سامنے کھڑے ہوں۔
رہبر معظم نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ شام کے جوانوں کی غیرت اور استقامت جلد ہی اس بحران پر قابو پا لیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب اللہ کی مدد سے ہوگا اور صیہونیت اور مغربی طاقتوں کے ناپاک اثرات اس خطے سے مٹا دیے جائیں گے۔
حرف آخر:
رہبر معظم کا یہ خطاب نہ صرف شام کی موجودہ صورتحال کا تفصیل سے جائزہ پیش کرتا ہے، بلکہ اس میں ایران کے کردار اور مزاحمتی محاذ کی اہمیت کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ ان کا پیغام یہ ہے کہ دشمن جتنا بھی طاقتور ہو، اس کے سامنے کھڑا رہنا اور اپنے ایمان اور استقامت کو مضبوط رکھنا ضروری ہے۔ یہ خطاب ایک طرف خطے کے عوام کو اپنی طاقت پر یقین دلاتا ہے، تو دوسری طرف دشمن کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے یکجہتی کی ضرورت پر بھی زور دیتا ہے۔
شام کی موجودہ صورتحال میں ایران کا کردار دفاعی، برادرانہ اور ایمانی نوعیت کا ہے، اور یہ خطاب اس بات کو واضح کرتا ہے کہ ایران کی استقامت میں کوئی کمی نہیں آئے گی، بلکہ یہ مزید مستحکم ہوگی۔